گزرے دن
گرمانی مرکزِزبان و ادب ، لمز کی جانب سے اردو کےممتاز فکشن نگار ڈاکٹر حسن منظر
کی خودنوشت گُزرے دن کی تقریب رونمائی کا انعقاد 13 نومبر، 2023 ء ک و کیا گیا۔مصنف
اس محفل میں آن لائن شریک ہوئے ۔تقریب کی نظامت کے فرائض ڈاکٹر ناصر عباس نیرّ
نے سرانجام دیے۔ شرکائے گفتگو میں اردو زبان و ادب کے نامور اساتذہ ڈاکٹر
ضیاءالحسن اور ڈاکٹر نجیب جمال شامل تھے۔ اس تقریب میں لمز کے علاوہ دیگر اداروں
سے بھی طلبا و اساتذہ نے شرکت کی۔
ڈاکٹر ناصر ع باس نیرّ نے تقریب کے آغازمیں حسن منظر کی شخصیت کا تعارف پیش
کرتے ہوئے ان کی وسعت نظری ، وسیع المشربی اور عالمی شہریت کے احساس کو
خاص طور پر موضوع بنایا۔ان کا کہنا تھا کہ حسن منظر کو ایک ڈاکٹر کی حیثیت سے
دنیا کے مختلف ممالک جیسے سعودی عرب ،شمالی نائجیریا، مغربی نائجیریا ، سکاٹ
لینڈ اور ملائشیا میں قیام کرنے کا موقع ملا ۔جہاں کی ثقافتی اور سماجی زندگی کے
گہرےمشاہدے نے نہ صرف ان کے تخیل کو وسعت عطا کی بلکہ ان کی تحریروں کو
موضوعاتی رنگا رنگی سے بھی ہم کنار کیا ۔ نائجیریا کے زمانہءقیام ) 1964 ء -
1968 ء( میں لکھی گئی تصنیف گزرے دن کو بھی ناصر صاحب نے مصنف کے مشاہدے
کی باریک بینی او ر تجربات کے تنوع کا اظہار قرار دیا ۔
ڈاکٹر ضیاءالحسن نے گفتگو کرتے ہوئے حسن منظر کی آپ بیتی ، افسانے اور ناول میں
ان کے افسانے کو بڑا تخلیقی تجربہ قرار دیا۔ ان کا کہنا تھا :گزرے دن کو پڑھتے ہوئے
بار بار یہ محسوس ہ وتا ہے کہ حسن منظر دنیا سے بیگانہ نہیں بلکہ وہ دنیا سے سرو کار
رکھتے ہیں ۔دنیا میں کہیں بھی غیر انسانی رویہ ہو ، چاہے وہ انفرادی سطح کا ہو ی ا
اجتماعی سطح کا ، وہ اس کو د یکھتے ہیں ، محسوس کرتے اور اپنا موضوع بناتے ہیں ۔
جس دور میں یہ کتاب لکھی گئی نائجیریا خانہ جنگی سے گزر رہا تھا اور مصنف اس
کوغیر جانبدار مبصر کی حیثیت سے دیکھ رہے تھے ۔ڈاکٹر ضیاءالحسن نے اس تصنیف
کو نائجیریا کی غیر جانب دار تاریخ قرار دیا ، اسی وجہ سے اس کی اہمیت نائجیرین قارئین
کے لیے اردو قارئین سے بھی بڑھ کر ہے۔
ڈاکٹر نجیب جمال نے گزرے دن میں بیان کیے گئے خوابوں کی اہمیت کو اجاگر کیا۔
خواب اس کتاب میں غالب حیثیت رکھتے ہیں اور ان کی نوع یت سیاسی،سماجی،مذہبی
ہے۔ان کا کہنا تھاکہ ان خوابوں کی تفہیم و تعبیر کی ضرورت ہے،اس کے بعد ہی کتاب
کی مکمل تفہیم ہو پائے گی ۔نیز انھوں نے ڈائری میں بیان کیے گئے واقعات کے نتاظر
میں اس ک و نائجیریا کے ایک عہد کی تاریخ قرار دیا ۔
آخر میں حسن منظر صاحب نے خوشی کا اظہار کرتے ہوئے کہا کہ مقررین نے اس
کتاب پر سیر حاصل گفتگو کی اور شاید ہی کوئی پہلو چھوڑا گیا ہو۔ ان کی یہ تصنیف
اگرچہ اب شائع ہوئی ہے مگر یہ کئی سال قبل نائجیریا کے قیام کے دوران لکھی گئی
تھی اس کے باوجود اشاعت سے پہلے زیادہ تبدیلیوں کی ضرورت محسوس نہیں ہوئی،
محض چند نامکمل جملوں کو مکمل کیا گیا ہے یا کچھ یاد آجانے والی نئی باتیں شامل کی
گئی ہیں ۔مصنف کا کہنا تھا کہ اس خود نوشت میں انھوں نے ایک طرف خود ستائشی سے
گریز برتا ہے تو دوسری طرف کسی سے بدلہ لینے یا ذاتی تعلقات گنوانے کی بھی
کوشش نہیں کی ۔حسن منظر نے اس کتاب کی تقریب رونمائی کے انعقاد پر گرمانی مرکزِ
زبان و ادب کا شکریہ اداکیا۔ انھوں نے حاضرین کے سوالات کے جوابات بھی دیے۔
ڈائریکٹر گرمانی مرکز زبان و ادب ڈاکٹر نضرہ شہباز خان نے حسن منظر صاحب کا
شکریہ ادا کیا اور کہا کہ ہماری کوشش یہی تھی کہ آپ کو ہم بلاسکتے ، اگر کبھی آپ
تشریف لا سکیں تو آ پ کو اپنے درمیان دیکھنا اور آپ کی کتابوں کی پذیرائی ہمارے
لیے باعث مسرت ہو گی ۔ انھوں نے مقررین ڈاکٹر ضیاءالحسن اور ڈاکٹر نجیب جمال
کا خصوصی شکریہ ادا کیا۔اس موقع پر انھوں نے گرمانی مرکز زبان و ادب کی ٹیم کو
بھی سراہا۔