Aasman Dar Aasman
گرمانی مرکز زبان و ادب کی جانب سے ممتاز محقق، ماہر تعلیم اور ادیب ڈاکٹر شاہد صدیقی کی نئی کتا ب آسمان در آسمان کے حوالے سے ایک علمی و ادبی نشست کا اہتمام کیا گیا۔ اس نشست کا موضوع 1947، ہجرت اور فنکار تھا، جس پر سنجیدہ اور بامعنی گفتگو ہوئی۔ نشست کے معزز مقررین میں ممتاز مورخ اور استادِ تاریخ ڈاکٹر علی عثمان قاسمی اور معروف افسانہ نگار و کالم نگار آمنہ مفتی شامل تھے۔

ڈاکٹر علی عثمان قاسمی نے ہجرت کے تاریخی پس منظر کو اجاگر کرتے ہوئے اس کے انفرادی اور اجتماعی اثرات پر گفتگو کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ہجرت صرف سیاسی یا جغرافیائی تبدیلی نہیں بلکہ ایک ایسا تہذیبی اور نفسیاتی زلزلہ ہے جو فنکار کے باطن میں گہرے اثرات چھوڑتا ہے۔ انہوں نے کتاب "آسمان در آسمان" کو اس حوالے سے اہم قرار دیا کہ یہ محض بیانیہ نہیں بلکہ تخلیقی اظہار کا ایک ایسا وسیلہ ہے جو تاریخ کو انسانی جذبوں کے تناظر میں سمجھنے کی دعوت دیتا ہے۔

آمنہ مفتی نے اپنی گفتگو کے دوران نوجوانوں کی ایسے سنجیدہ اور تہذیبی موضوعات میں دل چسپی کو سراہا، اور ڈاکٹر صدیقی کی تحریر کو سادہ، دلنشین اور قاری سے مکالمہ کرنے والی نثر قرار دیا۔ انہوں نے تقسیم سے متعلق کہانیوں کو شامل کر کے گفتگو کو جذباتی اور انسانی سطح پر مربوط کیا، اور اس بات پر زور دیا کہ ایسی کتابیں صرف ماضی کی تفہیم ہی نہیں، موجودہ نسل کی فکری تربیت کا ذریعہ بھی ہیں۔

ڈاکٹر شاہد صدیقی کی یہ کتاب صرف ہجرت کی تاریخ نہیں بلکہ اس کے جمالیاتی، نفسیاتی اور وجودی پہلوؤں کی جستجو ہے۔ افسانوں، خاکوں اور نثری تحریروں کے ذریعے فنکار کے باطن میں برپا ہجرت کے طوفان کو محسوس کیا جا سکتا ہے۔کتاب کا ایک نمایاں پہلو یہ ہے کہ اس میں مختلف فنون—بالخصوص موسیقی—کے حوالے سے ہجرت کے اثرات کو دریافت کیا گیا ہے۔ مہدی حسن، نور جہاں، اور رئیس خان جیسے فنکاروں کی زندگیوں اور فن کو اس تناظر میں بیان کیا گیا ہے کہ کس طرح ہجرت نے ان کی شناخت، فن اور جذبات کو تشکیل دیا۔ مہدی حسن کا راجستھان سے پاکستان آنا اور پھر ان کے فن کا نیا روپ ہجرت کی جمالیات کا مظہر ہے۔نور جہاں تقسیم کے بعد محض گلوکارہ نہ رہیں بلکہ ایک ثقافتی علامت بن گئیں۔رئیس خان کی ستار نوازی، جو سرحدوں کو مسترد کرتے ہوئے موسیقی کی عالمگیر زبان میں ڈھلتی ہے، کتاب میں ہجرت کے بعد کی تخلیقی جدوجہد کی ایک علامت کے طور پر پیش کی گئی ہے۔ کتاب نہ صرف فنکار کے کرب کو بیان کرتی ہے بلکہ یہ سوال بھی اٹھاتی ہے کہ تخلیق، ہجرت جیسے اندوہناک تجربے سے کس طرح جنم لیتی ہے۔ نشست میں ہونے والی گفتگو نے کتاب کو محض ایک ادبی مجموعہ نہیں، بلکہ ایک تہذیبی مطالعہ کے طور پر متعارف کروایا—ایسا مطالعہ جو ہجرت، فن اور انسان کے درمیان تعلق کو نئے زاویوں سے سمجھنے میں مدد دیتا ہے۔
