ترجمہ نگاری
ایک روزہ تربیتی ورکشاپ
ترجمہ نگاری
۲۰ اپریل ۲۰۲۴ء: گرمانی مرکزِ زبان و ادب ،لمز نے اپنی ورکشاپس کا آغاز دو سال قبل علمی نثر نگاری پر ورکشاپ سے کیا۔ علمی نثر نگاری پر چوتھی ورکشاپ اگلے ہفتے منعقد ہوگی۔ اس سیمسٹر میں ترجمے پر ورکشاپ بھی شامل کی گئی ۔ کل یہ ورکشاپ منعقد کی گئی ۔ اس ورکشاپ میں ملک بھر سے مختلف علمی و ادبی شعبوں سے وابستہ محققین ، طلبا اور اساتذہ نے شرکت کی اور ماہرین کی رہ نمائی میں ترجمہ نگاری سے بہ طور علم اور مہارت جامع رہ نمائی حاصل کی۔ ورکشاپ میں ڈاکٹر غلام علی، ڈاکٹر شاہ زیب خان اور ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے بہ طور ٹرینرز شرکت کی اور ترجمہ کے تقاضے ، ترجمہ کے عمل اور نثری تراجم، اور ترجمہ بطور اسلوبِ تحقیق کے موضوعات پر شرکا کی رہ نمائی کی۔ ورکشاپ کے میزبان ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے ورکشاپ کا تفصیلی تعارف کروایا اور اس کی اہمیت پر روشنی ڈالی کہ کس طرح سے بہت سے علوم پر دسترس کے لیے ترجمہ بنیادی کردار ادا کرتا ہے۔ انھوں نے بتایا کہ یہ تہذیبوں کے درمیان رابطے کا اہم ذریعہ بھی ہے۔ انھوں نے کہا کہ ترجمہ خلا میں واقع ہوتا ہے نہ یہ ایک الگ تھلگ سرگرمی ہے۔ مترجم کی سماجی ، تاریخی ، نفسیاتی حالتیں ترجمے پراثر انداز ہوتی ہیں۔ انھوں نے ترجمے کے نو آبادیاتی پس منظر پر بھی روشنی ڈالی کہ کس طرح ایک طرف ترجمے نے نو آبادیات کے قیام میں مدد دی اور دوسری طرف ہمارے ذہنی آفاق کو بھی وسیع کیا۔ انھوں یہ بھی کہا کہ مترجم کو مصنف سے کم تر سمجھا جاتا ہے جو درست نہیں ہے۔
ڈاکٹر غلام علی نے کلیدی خطبے میں کہا کہ ترجمے اور علم ترجمہ میں فرق کیا جانا چاہیے۔ انھوں نے ترجمہ کو بطور علم سمجھنے کی ضرورت پر زور دیا اور بتایا کہ کیسے یہ ایک ناواقف تہذیب اور ذہن سے واقف کروانے کا اہم ذریعہ ہے۔ انھوں نے مزید بتایا کہ مغربی اور یورپی فکر کی مرکزیت قائم کرنے میں بھی ترجمہ کی سرگرمی کا کلیدی کردار رہا ہے۔ آخر میں انھوں نے بتایا کہ اپنی زبان میں علم کی تخلیق کے لیے ضروری ہے کہ دوسری زبانوں میں موجود علوم کا زیادہ سے زیادہ ترجمہ اپنی مقامی زبانوں میں کیا جائے جو کہ قومی ترقی و سلامتی کا ضامن ہوگا۔
اس کے بعد پہلا سیشن میں ڈاکٹر عنبرین صلاح الدین نے ترجمہ کی افادیت، علم کی ترویج میں اور تہذیبی ارتقاء میں اس کے ناگزیر کردار پر روشنی ڈالی۔ انھوں نے اچھے ترجمے کی خصوصیات سے بھی حاضرین کو متعارف کروایا اور ترجمہ نگاری کے عمل میں پیش نظر رکھے جانے والے اہم عوامل کا بھی اجمالی ذکر کیا اور مثالوں سے ان کی وضاحت بھی کی۔
دوسرا سیشن بعنوان نثری تراجم میں ڈاکٹر غلام علی نے ترجمہ نگاری کے عمل اور اس کی ترویج میں تھیوری کی اہمیت اور اس سے متعلق معاصر رجحانات پر تفصیلی بحث کی اور مثالوں سے وضاحت کی۔ آپ نے فکشن کے ترجمے کے رہ نما اصولوں کے حوالے سے حاضرین کو آگاہ کیا اور اس سے متعلق مسائل کا بھی ذکر کیا۔ آخر میں آپ نے ترجمہ نگاری سے متعلق متعدد سافٹ ویئرز اور ان کے طریقۂ استعمال سے بھی شرکاء کی رہ نمائی کی۔
ورکشاپ کے آخری سیشن ترجمہ نگاری بطور اسلوبِ تحقیق میں ڈاکٹر شاہ زیب خان نے ترجمہ نگاری بطور انسانی حالت، اس کے چند بنیادی تصورات اور ترجمہ نگاری بطور ردِ نو آبادیاتی اسلوبِ تحقیق کے موضوعات پر روشنی ڈالی اور ترجمہ نگاری سے متعلق دل چسپ عملی سرگرمیوں سے شرکاء کی رہ نمائی کی۔ انھوں نے ترجمہ نگاری بطور رد نو آبادیاتی اسلوبِ تحقیق پر سیر حاصل گفتگو کی اور بتایا کہ کیسے ترجمہ نگاری حسی و علمی ادراک، جغرافیائی سیاست اور خیالات ، فکر و فلسفہ اور اجتماعی سماجی تشکیل میں اہم کردار ادا کرسکتا ہے۔ انھوں نے رد نوآبادیاتی ترجمہ کے اہم مراحل سے متعلق بتایا کہ کیسے تحقیق کے لیے متون کے انتخاب کے وقت اپنے فلسفہ ہائے حیات اور بقائے باہمی کی تلاش، مقامی طرز معاشرت اور ثقافت کو پیشِ نظر رکھنا ناگزیر ہے۔ گفتگو کو سمیٹتے ہوئے انھوں نے کہا کہ قومی بقا کے لیے ضروری ہے کہ ردِ نوآبادیاتی علم کو اپنی زبان میں میسر کیا جائے تاکہ متبادل علمیات تک رسائی کی صورت ممکن ہو۔
آخر میں ڈاکٹر ناصر عباس نیّر نے تمام ماہرین کا شکریہ ادا کیا اور شرکائے ورکشاپ کے تاثرات لیے۔ تمام شرکاء اس بات پر متفق تھے کہ اس ورکشاپ سے ان پر ترجمہ نگاری سے متعلق نئے زاویے کھلے ہیں اور اس عمل کی سنجیدگی اور اس کو بطور علم و مہارت سیکھنے کا بھر پور موقع ملا ہے۔ ورکشاپ کے اختتامی سیشن میں ڈائریکٹر گرمانی مرکزِ زبان و ادب ڈاکٹر نضرہ شہباز خان نے اس کامیاب ورکشاپ کے انعقاد پر اس بیش قیمتی علمی سرگرمی کے روح رواں ڈاکٹر ناصر عباس نیّر اور گرمانی مرکز کی ٹیم کو مبارکباد پیش کی اور مستقبل میں ایسی علمی و تربیتی ورکشاپس کے انعقاد کے سلسلے کو جاری رکھنے کی یقین دہانی کروائی اور شرکائے ورکشاپ میں اسناد بھی تقسیم کی۔