to
گرمانی مرکز زبان و ادب لمز، جناب رفعت عباس کی کتاب (سندھی سے سرائیکی ترجمہ) بہ عنوان ’’جینویں ترٹیا ہڈ ڈکھے‘‘کی تقریب رونمائی کا اہتمام کر رہا ہے۔ جس میں آپ کو شرکت کے لیے مدعو کیا جا رہا ہے۔
مہمان مقررین:
رفعت عباس ،خلیل کنبھار،ارم کاشف،رانا محبوب اختر
نظامت: پروفیسر ڈاکٹرناصر عباس نیر
بتاریخ: 8 مارچ 2023، بروز بدھ
بوقت: شام 4 بجے سے 6بجے تک
بمقام: A-12،اکڈیمک بلاک ،مشتاق احمد گرمانی سکول ،لمز۔
شرکت کے لیےنیچے دیے گئے لنک پر کلک کریں:
https://forms.gle/BJXyn4jK65XZwXRu6
رجسٹریشن کی آخری تاریخ یعنی 7 مارچ، شام 4 بجے کے بعد منتخب افراد کو بذریعہ ای میل مطلع کیا جائے گا۔
مقررین کا تعارف:
رفعت عباس
سرائیکی زبان کے ممتاز شاعر اور فکشن نگار ہیں۔ اگرچہ وہ اردو تدریس سے وابستہ رہے ہیں تاہم ان کے تخلیقی و فکری اظہار کی زبان، ان کی مادری زبان سرائیکی ہے۔ انھوں نے صرف سرائیکی زبان اور اس کی ثقافت کا مقدمہ اپنی شاعری اور اپنے فکشن میں پیش کیا ہے۔ ان کی کتاب مقامی آدمی کا مؤقف ان کے مقامیت بہ مقابلہ استعماریت سے متعلق تصورات کی ترجمان ہے۔ ان کی شاعری کے دس مجموعے شایع ہو چکے ہیں۔ جن میں پڑچھیاں اُتے پھُل، سنگت و بد، عشق اللہ سائیں جگایا اور ایں نارنگی اندر شامل ہیں۔ ان کا ناول لونڑ دا جیون گھر جس کا ترجمہ نمک کا جیون گھر مقبول ہوا ہے۔ ان کی ادبی خدمات پر انھیں حکومتِ پاکستان نے صدارتی تمغۂ امتیاز عطا کیا ہے۔
خلیل کنبھار
سندھی زبان کے شاعر ہیں۔ ان کی آواز سندھ کے صحرائے تھر سے اُبھری ہے۔ وہ پیشے کے اعتبار سے پولیس آفیسر ہیں لیکن ایک ایسے پولیس مین جو تھر اور تھرپارکر کے انسانوں کے ساتھ ساتھ وہاں کے ہرنوں، موروں کے نگہبان بھی ہیں۔ وہ ہرن کے سمگلروں کو پکڑتے اور ہرنوں کو اپنے ہاتھ سے دوبارہ ان کے صحرا میں چھوڑتے ہیں۔ وہ تھرپارکر کے حسین پہاڑ کارونجھر کے بھی محافظ ہیں اور اس کی کٹائی کے خلاف عملی طور پر تحریک چلاتے ہیں۔ ان کی شاعری میں سندھ کا عام فرد سورما اور سورمی بن کر ابھرتا ہے۔ وہ شودروں، اچھوتوں اور ملیچھوں کی طرف سےبولتے ہیں۔ وہ پچھڑے ہوئے لوگوں کے وکیل ہیں۔ وہ سندھ میں شاعری کا ایک نیا امکان لے کر آئے ہیں۔
ان کی سندھی شاعری کے واحد مجموعے بھگے ہڈ جیوں ڈکھان آئیوں کو بے پناہ مقبولیت حاصل ہوئی ہے۔رفعت عباس نے اس سندھی شعری مجموعے کا سرائیکی زبان میں ترجمہ کیا ہے۔ خلیل کنبھار کے سندھی کالموں کا اردو ترجمہ بہت جلد اب اچھوت بولے گا کے نام سے شایع ہو رہا ہے۔
ارم کاشف
نجی سکول میں شعبہ اردو کی کوارڈینیٹر،لکھاری اور تبصرہ نگار ہیں۔ انھوں نے مختلف نجی اداروں کے لیے اردو نصاب ترتیب دیا۔ سرائیکی شاعری و ادب سے خاص دل چسپی رکھنے کے ساتھ ساتھ سرائیکی ادب پاروں کے تجزیے اور تبصرے پر مشتمل پروگرام ’’نیٹو آرٹ‘‘ کے نام سے کرتی ہیں۔
رانا محبوب اختر
سرائیکی زبان و ادب کے معروف محقق اور نقاد ہیں۔ انگریزی ادب میں ایم۔ اے کے بعد کچھ عرصہ تدریس کی، پھر پاکستان سول سروس کے لیے منتخب ہوئے ۔ آبائی تعلق مظفر گڑھ سے ہے، ان دنوں لاہور میں مقیم ہیں۔ مونجھ سے مزاحمت تک ان کی معروف کتاب ہے جس میں سرائیکی شاعری کی مزاحمتی جہات کا تجزیہ کیا گیا ہے۔ وہ باقاعدگی سے روزنامہ خبریں میں کالم بھی لکھتے ہیں۔
نظامت: پروفیسر ڈاکٹرناصرعباس نیر
اردو ادب کے ممتاز نقاد، اور افسانہ نگار، ناصر عباس نیّر سابق ڈائریکٹر جنرل اردو سائنس بورڈلاہوراوراس وقت پنجاب یونیورسٹی لاہور کے شعبۂ اردو سے بہ طور پروفیسر وابستہ ہیں۔ وہ۲۰۲۰ءسے گرمانی مرکز زبان و ادب، لمز کے تحقیقی جریدے بنیاد کے اعزازی ایڈیٹر ہیں۔ انھوں نے۳۰کے قریب کتابیں تصنیف و تدوین کی ہیں۔ اردو میں مابعد نوآبادیاتی مخاطبے کا آغاز کیا، جب اس موضوع پر ان کی اردو کی پہلی مکمل، باقاعدہ کتاب مابعد نوآبادیات اردو کے تناظر میں (۲۰۱۳ء) سامنے آئی۔ اسی موضوع پر ان کی دوسری کتاب اردو ادب کی تشکیل جدید(۲۰۱۶ء) ہے جس نے کراچی لٹریری فیسٹیول ۲۰۱۷ءمیں بہترین اردو کتاب کا انعام اورپاکستان اکیڈمی آف لیٹرز کی جانب سے بابائے اردو مولوی عبدالحق ایوارڈ برائے اردو نثر۲۰۱۶ءحاصل کیا۔ ان کی کتاب اس کوایک شخص سمجھنا تو مناسب ہی نہیں(۲۰۱۷ء) کو یو۔ بی۔ایل ادبی ایوارڈ ۲۰۱۹ ء ملا۔ایک زمانہ ختم ہوا ہےان کی کہانیوں کا چوتھا مجموعہ ہے۔ ان کی تازہ ترین کتابیںColoniality, Modernity and Urdu Literature (۲۰۲۰ء)،جدیدیت اور نوآبادیات (۲۰۲۱ء) ،یہ قصہ کیا ہے معنی کا(۲۰۲۲ء) اور نئے نقاد کے نام خطوط (2023ء) ہیں۔ وہ گزشتہ کئی سالوں سے انگریزی اخبار Dawnاور The Newsمیں باقاعدگی سے ادبی مسائل پر لکھ رہے ہیں۔